Tuesday, March 16, 2010

!(4)زلزلہ نامہ، عدنان کی آپ بیتی



 
 
منگل پچیس اکتوبر، بالاکوٹ

کل رات بہت پریشانی رہی کیونکہ بالا کوٹ کل واپس پہنچنے پر احساس ہوا کہ ہماری ٹیم کے سترہ لوگوں میں سے ڈاکٹر کاشان مسنگ ہیں اور ہمارے ساتھ واپس نہیں آئے۔ ہم سب سمجھتے رہے کہ وہ پیلی کاپٹر میں واپس آگئے ہیں لیکن وہ شاید ابھی وہیں تھے۔ کاشان بہت اہم ہیں کیونکہ وہ چائلڈ سپیشلسٹ ہیں اور ان کی سخت ضرورت ہے۔ ہم انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب ہر دفعہ کہیں سے بھی آنے جانے میں ہمیں باڈی کاؤنٹ کرنا ہوگا۔

آج ہم اپنے ساز وسامان کے ساتھ فیلڈ میں جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ہمیں پروگرام کے مطابق آج شنگران جانا تھا لیکن امدادی کارروائیوں کے مقامی فوجی کمانڈر کے عملے نے بتایا کہ فوج نے وہاں اپنا میڈیکل کیمپ قائم کر لیا ہے اس لیے وہاں اب ہم جیسے رضاکار نہیں چاہئیں۔

اس لیے ہم نے آج پہلے مظفرآبار اور پھر وہاں سے الائی جانے کا فیصلہ کیا۔ الائی جیسا کہ ہم جانتے ہیں پچھلے کچھ دنوں سے امدادی کارروائیوں کے علاوہ آتش فشانی کے خدشے کی وجہ سے خبروں میں آ رہا ہے۔

ادھر ڈاکٹر کاشان کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ اللہ کرے وہ جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں۔ وہ بغیر آرام کئے کام کئے چلے جارہے تھے، مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں بیمار نہ ہوگئے ہوں۔
 
ہم فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مظفر آباد پہنچے۔ سب سے پہلے ہم نے آرمی اور اسلام آباد میں ہماری ٹیم کی طرف سے بھیجی ہوئی دوائیں مقامی طبی مرکز کو پہنچائیں۔ مظفر آباد میں زندگی بچانے والی ادویات یا (life-saving drugs) کی ضرورت تھی۔
ہم وہاں سے ضروری سامان اٹھا کر الائی کے لیے روانہ ہو رہے تھے کہ ہماری ملاقات طبی مرکز میں پہنچائے گئےچند مریضوں سے ہو گئی۔ ان لوگوں کو الائی کے علاقے استور سے لایا گیا تھا۔

ان مریضوں میں ایک خاتون زبیدہ جان بھی تھی۔ عمر تیس سے پینتیس سال کے درمیان رہی ہوگی لیکن ان کی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ وہ اپنے نچلے دھڑ کو زیادہ ہلا جلا نہیں سکتیں۔ان کے ساتھ آئے ہوئے دیگر مریضوں نے زبیدہ جان کی ہمت اور اپنی مدد آپ کی جو کہانی ہمیں سنائی اسے سن کر اگرچہ آنکھوں نم ہوجاتی ہیں لیکن ایک نیا حوصلہ بھی ملا۔

زبیدہ جان کا سارا خاندان، شوہر، دو بیٹے، بیٹی، ساس اور سسر۔۔۔ سب کے سب زلزلے کے پہلے جھٹکے کی نظر ہوگئے۔ وہ خود بھی شدید زخمی ہوئیں۔ ہوش آنے پر جب پتا چلا کہ ان کے اپنوں میں کوئی نہیں بچا، انہوں نے دوسروں کی مدد کرنا شروع کر دی۔

ان کے گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ زبیدہ جان نے نو نوجوان لڑکیوں کو ملبے کے نیچے سے نکالا۔ جب زلزلہ آیا تو یہ لڑکیاں برابر والے گھر میں تھیں۔ چونکہ ان لڑکیوں کے گھر والوں کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں، زبیدہ جان نے ان کو اپنے ساتھ رکھا اور ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔

گزشتہ دو ہفتے کے دوران تین چار مرتبہ آرمی والوں نے انہیں مظفر آباد لائے جانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے ہر بار یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک ان کے گاؤں کے دوسرے زخمی نہیں نکال لیے جاتے وہ نہیں جائیں گی۔

آج جب انہیں مظفر آباد لایا گیا ہے تو زبیدہ جان کی اپنی حالت غیر ہو چکی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں لیکن اب بھی ہم نے ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے۔ بلکہ یہاں تک کہ ان کی باتیں سن کر ہماری آنکھیں بھر آئیں تو انہوں نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اپنی مادری زبان میں کچھ کہا۔ لیکن اس مرتبہ ہمیں کسی ترجمان کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کا اشارہ بالکل واضع تھا: یہ وقت آنسو بہانے کا نہیں بلکہ میری طرح اپنی جسمانی طاقت کا آخری ذرہ بھی متاثریں کی امداد میں خرچ کرنے کا ہے۔‘

ہمیں مظفر آباد سے الائی جانا تو تھا ہی لیکن زبیدہ جان کی نصیحت نے جیسے ہماری کارروائیوں میں ایک نئی تیزی بھر دی۔
ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں امریکی ہیلی کاپٹر میں جگہ مل گئی اور ہم الائی روانہ ہوگئے۔

لیکن الائی میں ہمارے ہیلی کاپٹر کو اترے ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ زلزلے کے شدید جھٹکے آئے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ تو یہاں کا معمول ہے اور خدشہ ہے کہ الائی کے پہاڑ کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں۔ ہم نے بھی ان پہاڑوں سے دھواں اٹھتے دیکھا۔ سارا علاقہ کسی کیمیائی مادے کی جلنے کی بو سے بھرا ہے۔
 
ہم الائی کے بازار میں پہنچے، یہاں پر مقامی جامعہ مسجد سے لوگوں کو چار لاشیں نکالتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ چار لوگ رائے ونڈ سے تبلیغی جماعت کے ساتھ آئے تھے اور آٹھ اکتوبر کے بعد سے اس مسجد کے ملبے کے نیچے ہیں۔ مقامی نوجوانوں نے یہاں بہت مؤثر ٹیمیں تشکیل دی ہوئی ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت خوب کام کررہے ہیں۔
 
ہماری ٹیم میں شامل ڈاکٹروں نے دو درمیانے درجے کے آپریشن کئے اور پھر ان مریضوں کو مقامی فوجی ٹیم کے حوالے کیا تاکہ انہیں مزید علاج کے مظفرآباد بھجوایا جاسکے۔
 
پچھلے ایک گھنٹے سے الائی میں موسم خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا تھا۔ زلاًزلے کے جھٹکے تو کم ہونے میں نہیں ائے لیکن بارش بھی بڑھ گئی۔ ہمارا ارادہ مزید وہاں رکنے اور کام کرنے کا تھا لیکن ہمیں بتایا گیا کہ موسم خراب ہونے کے باعث ہمیں فوراً واپس چلے جانا چاہئے۔

ہمیں ابھی تک ڈاکٹر کاشان کا پتہ نہیں چل پایا ہے۔ ہم نے فوج کو اطلاع دی ہے اور وائرلیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تمام ٹیم پریشان ہے۔


Monday, March 15, 2010

!(3)زلزلہ نامہ، عدنان کی آپ بیتی




http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/1640_adnan_diary_ms/page22.shtml
پیر، چوبیس اکتوبر:

’خدا کا شکر ہے کہ بالاکوٹ سے دوائیوں اور خیموں کا بندوبست ہوگیا ہے۔ میں دوبارہ فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے جب ناران پہنچا تو وہاں بارش ہورہی تھی اور سردی کا تو نہ ہی پوچھیں۔ اب ہم شنگرام کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ راستہ خاصا خطرناک اور لینڈ سلائیڈز سے بھرا ہوا ہے۔ کافی راستہ صرف خچروں کے ذریعے اور پیدل طے کیا۔
بس اب مجھ میں مزید لکھنے کی ہمت نہیں۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’حکومت علاقے میں کام کرتی نظر آتی ہے لیکن لگتا ہے ان کی کوششیش ناکافی ہیں۔ ناران اور کاغان کو ملانے والی سڑک کو کئی مرتبہ کھولا گیا لیکن یہ راستہ باربار لینڈ سلائیڈنگ سے بند ہو جاتا ہے۔
آبادی میں سے تقریباً نصف زلزلے میں ہلاک ہو گئی ہے جبکہ علاقے میں اس وقت بھی زلزلے میں زخمی ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ فوجی ڈاکٹر جو اپنے عملے سے سترہ دیگر افراد کے ساتھ یہاں موجود ہیں انہوں نے بتایا کہ شدید زخمی افراد کی تعداد 98 ہے۔
ان زخمیوں کا علاج کیا جا رہا ہے لیکن دواؤں کی شدید کمی ہے۔
زخمیوں کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے کیونکہ یہ علاقہ خاصی شدید سردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے اور رات کے وقت درجہ حرارت صفر سے نیچے چلا جاتا ہے۔ اب تک 36 زخمی مر چکے ہیں جو کہ زیادہ تر نمونیہ اور پیٹ کی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔
لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ان کی پاس خیموں، بچوں کے لیےدودھ، جلانے کے لیے لکڑی اور گرم کپڑوں کی شدید کمی ہے۔
یہ حال تو ان لوگوں کا ہے جن سے ہم مل پائے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے دیہاتوں اور چھوٹی بستیوں کا پتا چلا جہاں تک شاید ابھی تک رسائی نہیں ہو پائی۔ علاقے میں موجود فوج کی امدادی ٹیمیں بھی سیارے سے لی ہوئی تصویروں کی مدد سے متاثر ہونے والی بستیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
اس علاقے میں امدادی سامان خچروں پر لاد کر لایا جاتا ہے لیکن اس کی مقداد اتنی کم ہوتی ہے کہ سارا سامان پل بھر میں ختم ہو جاتا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہم یہ بات بھول رہے ہیں کہ متاثرین کئی دنوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اور زخمیوں کو لیے امداد کا انتظار کرتے رہے ہیں۔ اور اب اشیاء پہنچ رہی ہیں تو ان کی مقدار بہت کم لگتی ہے۔
علاقے میں چوری کی وارداتیں بھی بڑہ چکی ہیں۔ کئی اہلکار استعمال شدہ امدادی سامان تو بانٹ رہے ہیں لیکن جو نیا ہے، کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ زخمیوں اور دواؤں کی تقسیم میں بھی امتیاز برتا جارہا ہے۔‘
To know more about Adnan & his work please visit’
http://pakistaniadnan.wordpress.pk
http://ashiyanacamp.blogspot.com

Saturday, March 13, 2010

زلزلہ نامہ- عدنان کی آپ بیتی- ناران / بالاکوٹ


اتوار، تئیس اکتوبر:
’تقریباً صبح صادق کے وقت ہم ناران پہنچے۔ یہاں حالات بہت ہی خراب تھے۔ لوگ ابھی تک اپنے ہی بنے ہوئے خیموں میں رہ رہے ہیں۔ پانی نام کو بھی نہیں تھا۔ زخمی تڑپ رہے تھے کیونکہ ہم سے پہلے آنے والی ٹیم کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ سب کو طبی امداد مہیا کرپائے۔
میری ٹیم کے لوگ جو ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے، وہ بھی سب کو اٹینڈ نہیں کرسکتے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ کیا کریں۔ وہاں دو این جی اوز کے لوگ بھی تھے۔ ہم سب نے مل کر ایک چھوٹی سی میٹنگ کی اور مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے شدید زخمیوں کو اٹینڈ کیا گیا۔ انتیس افراد اس وقت تک امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے جبکہ نو بچے شدید سردی کی نذر ہوچکے تھے۔ زخمیوں کی تعداد تقریباً چار سو بیاسی بتائی گئی جن میں نوِ کو فوری طبی امداد درکار تھی۔ ہم نے سب سے پہلے ایک جیپ کو بالا کوٹ روانہ کیا تاکہ وہ لوگ وہاں سے مدد لے کر اییں اور شدید زخمیوں کو وہاں روانہ کیا جاسکے لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔
جیسے دن چڑھا، بارش شروع ہوگئی۔ ایک طرف لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا اور دوسری طرف زخمی دم توڑنا شروع ہوگئے۔ شاید یہی ہمار امتحان ہے کہ یہاں لوگوں کو کچھ نہیں پتہ کہ کرنا کیا ہے۔
یہاں زخمیوں میں دو لوگ ہیں جو تبلیغ کے لیے کراچی سے یہاں آئے تھے۔ چھبیس سالہ حسن احمد کا تعلق فیڈرل بی ایریا سے ہے اور بتیس سالہ جاوید اکرم کورنگی سے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کے گھروں تک اطلاع پہنچ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید ہی ان کے جماعت کا کوئی شخص زندہ بچا ہو۔ بعد اذان یہ دونوں بھی بالاکوٹ منتقل ہوتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے۔
خدا کا شکر ہے کہ پتہ نہیں کس وقت ایک فوجی پیلی کاپٹر وہاں آیا، اس کے پائلیٹ کو تمام تفصیل بتائی تو اس نے زخمیوں کو وہاں سے بالاکوٹ منتقل کرنا شروع کیا۔
یہاں کے لوگ ابھی تک گم سم ہیں، نہ بولتے ہیں، نہ سنتے ہیں اور نہ ہی کھانے پینے کا ہوش ہے۔ فوج کے دریعے ہم نے یہاں خیمے تقسیم کئے اور لوگوں کو ان میں منتقل کیا۔ خیمے بہت ہی کم تھے اور باقی خیموں کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں اتا۔ مقامی لوگوں کے مشورے سے ہم نے کل اکیس خیمے لگائے جن میں پندرہ بچوں اور خواتین کے لیے مختص تھے اور باقی مردوں کے لیے۔ بعد میں مردوں نے اس میں سے بھی پانچ خواتین اور بچوں کے لیے خالی کردئیے۔ پھر لوگوں میں راشن پانی تقسیم کیا۔
لوگوں سے آگے کے حالات پوچھے تو انہوں نے بتایا کہ جھیل سیف الملوک کے داہنی جانب کچھ بستیاں ہیں جن کو شنگرام کہا جاتا ہے، وہاں سے ابھی تک کوئی خبر نہیں آئی۔
دوائیاں نہ ہونے کی وجہ سے میں آرمی ہیلی کاپٹر سے دوبارہ بالاکوٹ جارہا ہوں اور اب صبح تک ہی واپسی ممکن ہوگی۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/1640_adnan_diary_ms/page23.shtml

!زلزلہ نامہ

ہفتہ بائیس اکتوبر:
 
’علی الصبح بالا کوٹ پہنچ کر ہم نے وہاں فوج کے فیلڈ کیمپ سے رابطہ کیا اور ان سے حکمتِ عملی مانگی۔ انہوں نے اب تک کی صورتِ حال سے مطلع کیا اور ہمیں ان علاقوں تک پہنچنے کی ہدایت کی جہاں اب تک کوئی امداد نہیں پہنچ سکی۔
اس میں سے قابلِ ذکر علاقہ ناران وادی سے آگے سیف الملوک اور شنگران کا تھا جہاں لینڈ سلائیلانگ کی وجہ سے راستے تقریباً بند تھے۔ ہم جیسے ہی بالا کوٹ سے نکلے ہمیں پیدل آنے والوں کا ایک ہجوم نظر آیا جن میں زخمیوں کی خاصی تعداد تھی۔
کاغان پہنچے تو وہاں ہمیں کچھ لوگوں نے بتایا کہ تھوڑا سا اوپر ایک پہاڑی پر کچھ مکانات ہیں جو گر چکے ہیں اور لوگ زخمی ہیں۔ یہ تقریباً کاغان سے پندرہ ہی منٹ دور ایک پہاڑی ہے جس پر کل گیارہ مکانات تھے اور سب گر چکے تھے۔ ان میں بقول مقامی افراد کے تقریباً چالیس لاشیں دبی ہوئی تھیں جبکہ ایک مکان سے چیخوں کی آواز ابھی تک آرہی تھی۔ پہلے تو ہم نے باہر موجود زخمیوں کو فوری طبی مدد فراہم کی اور پھر وہاں کا ملبہ ہٹانے کی کوشش کی جس کے نیچے سے آوازیں آرہی تھیں۔ صرف ایک چھت کے نیچے تین عورتیں اور دو بچے دبے ہوئے تھے جسے ہٹانے میں کوئی زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اتنا تو آپ خود بھی کرسکتے تھے تو وہ کہنے لگے کہ مارے ڈر کے ہم نے یہ چھت نہیں ہٹائی۔
ایک بچہ مرچکا تھا جبکہ باقیوں کے بچنے کے امکانات بھی انتہائی کم تھے۔ ایک لڑکی، زلیخا جو شاید بیس برس کی ہوگی اور حاملہ تھی، اس کا بچہ اس کے پیٹ میں ہی مرچکا تھا۔ ہم نے اسے باہر نکالا اور وہ ہمارے سامنے دم توڑ گئی، شاید وہ صرف بچے کے لیے زندہ تھی۔
اس خاندان کا کوئی بھی مرد وہاں نہیں تھا۔ وہ لوگ کہاں تھے، ہمیں نہیں معلوم۔ وہاں لوگ روزانہ نیچے جاکر گزرنے والوں سے مدد کی درخواست کرتے تھے، لیکن بقول ان کے لوگ آنے کا وعدہ کرکے جاتے تھے اور کوئی نہیں لوٹتا تھا۔ وہاں شدید زخمیوں کی تعداد سترہ تھی جن میں چھ بچے، ایک بوڑھا آدمی اور دس عورتیں تھیں، جنہیں ہم نے نیچے سڑک تک پہنچایا۔
شام کو میں اور میرا ایک ساتھی دوبارہ ایک جیپ والے کی مدد سے بالاکوٹ روانہ ہوگئے کیونکہ دواؤں کی کمی ہورہی تھی اور ہمیں ان کی اشد ضرورت تھی۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ فوج کے جوان اب دن رات کی پرواہ کئے بغیر امدادی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/1640_adnan_diary_ms/page24.shtml

!زلزلہ نامہ۔ عدنان کی آپ بیتی


اس زلزلے نے شاید میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دی ہے۔

زلزلے والے دن میں دفتر میں تھا کہ ماما نے مجھے فون کیا کہ ٹی وی پر بلیٹن آیا ہے کہ زلزلہ آیا ہے اور کچھ عمارتیں گری ہیں۔ اس کے بعد میں نے اپنی بہن کو فون کرنے کی کوشش کی۔ وہ دو مہینے اسلام آباد شفٹ ہوئی ہے۔ اس کے شوہر ایف آئی اے میں تھے اور کراچی سے اسلام آباد ٹرانسفر ہوکر گئے تھے

بعد میں میرا جب ان سے رابطہ ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اسی عمارت میں تھی جو گری ہے۔ یہ بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ وہ آٹھ بج کر بیس منٹ پر اسی عمارت سے نکلے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے گاڑی آگے سڑک سے جا کر موڑی ہی ہے کہ زلزلہ آیا ہے۔ وہ واپس مڑے ہیں لیکن وہاں اتنی دھول اور مٹی تھے کہ وہ آگے نہیں جا پائے۔

ہمیں انتہائی خدشات کا شکار تھے۔ میں جب یہاں سے بھاگا تو فلائٹ نہیں مل رہی تھی۔ کوئی چار بجے کے قریب جاکر میں اسلام آباد پہنچا۔ ساڑھے چھ بجے میرے پیچھے میری ماما پہنچیں۔ جب وہاں ہم پہنچے تو فوج نے علاقے کو اپنی نگرانی میں لے لیا تھا۔ یہ تک پتہ نہیں چل پا رہا تھا کہ کون سا بلاک گرا ہے۔

میرا چھوٹا بھائی ایبٹ آباد میں تھا اور اسے وہاں سے رسالپور جانا تھا۔ وہ ائیرفورس میں جانے والا تھا۔ میں نے اسے اطلاع دینے کی کوشش کی تو اس کا بھی پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ رات کو آٹھ بجے کے قریب احساس ہوا کہ وہ بھی لاپتہ ہے۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اپنے کسی دوست کے والد کی وفات کی تعزیت کے لئے وہ جمعرات کو باٹا گرام گیا تھا اور اسے ہفتے کو لوٹنا تھا لیکن وہ واپس نہیں لوٹا۔

دوسری طرف ہمیں اپنی بہن کے بارے میں پتہ نہیں چل رہا تھا۔ پھر معلوم کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، اسلام آباد میں لاشیں اور زخمی لائے جارہے ہیں تو ہم وہاں دوڑے۔ وہاں کوئی فہرست موجد نہیں تھی کہ کون کس کی لاش ہے۔ ان لاشوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ ان کی شناخت کرنا انتہائی دشوار تھا۔ کچھ کے کپڑوں سے بھی اندازہ نہیں ہوپارہا تھا۔



تقریباً رات ساڑھے بارہ بجے اس کی چوڑیوں اور گلے میں پہننے والی چین سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ وہی باڈی ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ پھر ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ جس حالت میں یہ باڈی ملی کہ ایک بچہ اس کے ساتھ تھا جو مرنے کے وقت اس کے ساتھ ہی لگا ہوا تھا۔ یہ تقریباً گیارہ مہینے کا بچہ تھا۔ یہ اس کا پہلا بچہ تھا اور بچے کا چہرہ سلامت تھا جس سے اس کو پہچاننے میں آسانی ہوئی۔

دوسری طرف بھائی لاپتہ تھا لیکن ہم لوگوں کا من کہتا تھا کہ خدانخواستہ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی اور وہ خیریت سے ہوگا۔ ہمیں یہ بھی اطلاع ملی تھی کہ وہ ضبح سحری کرکے وہاں سے نکلا تھا لیکن افسوس کہ حکومت ابھی تک کچھ نہیں کرپائی۔ باوجود اس کے کہ مجھے اس کی لاش مل گئی لیکن بٹگرام کے اس گاؤں تک میں ابھی تک نہیں پہنچ پایا ہوں۔ رکھیلی یا رسیلی اس جگہ کا نام ہے، ابھی تک ہم اس گاؤں میں اس خاندان سے رابطہ نہیں کر پائے جہاں وہ گئے تھے۔

پہلے ہم نے بھائی کی گاڑی کے ذریعے اسے ٹریس کرنے کی کوشش کی۔ میں فوراً بھاگا، ایبٹ آباد گیا۔ ان کی گاڑی ایبٹ آباد نمبر کی تھی اور اس سے دولاشیں پنڈی سی ایم ایچ میں آئی تھیں۔ ان میں سے ایک کو بھائی کے دوست کے طور پر شناخت کرلیا گیا تھا۔ میری ماما نے مجھے کال کیا۔ میں واپس پنڈی دوڑا اور جس کی لاش شناخت ہوئی تھی اس کی فیملی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو باڈیز مل گئی ہیں۔ گاڑی بھی مل گئی ہے اور باقی دو باڈیز کی تلاش ابھی جاری ہے۔

وہ شاید بلا کوٹ سے پہلے کاغان اور ناران کے درمیاجن والی سڑک پر راستے میں تھے جب لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے کوئی چٹان یا پتھر گاڑی کو لگا اور وہ گاڑی نیچے وادی میں جاگری۔ گاڑی کے اندر کی دو باڈیز مل گئیں۔ بعد جب ملٹری نے اس راستے کو کھولا تو مٹی میں سے بہت سی باڈیز ملیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے خود دیکھا کہ وہاں وہ حالت تھی کہ بتانے سے قاصر ہیں۔ لوگ مٹی میں دبے تھے اور کسی کا کوئی احترام نہ تھا۔ کسی کا ہاتھ نظر آرہا ہے، کسی کا جوتا نظر آرہا ہے اور کسی کی قمیض۔ یوں میں یہ باڈی لے کر اسلام آباد پہنچا

۔

وہاں لوگوں نے بتایا کہ یہ لوگ ایک چھوٹے سے قافلے کی شکل میں تھے جس میں ایک منی وین، دو ڈاٹسن کاریں تھیں اور یہ لوگ پوٹھوہار جیپ میں تھے۔ یہ کاغان ویلی سے بالا کوٹ کے لیے آرہے تھے۔ وہاں جو میں نے تھوڑی بہت تفتیش کی تو یہ واحد گاڑی تھی جو یوں لگ رہا تھا کہ کسی نے اٹھا کر پھینک دی ہے۔ باقی سب گاڑیاں ابھی تک مٹی میں دبی ہوئی تھیں۔ اس میں سے یہ دو کیسے نکلے، آیا یہ زخمی تھے کیونکہ وہاں مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب لوگوں نے انہیں نکالا تو ایک بندے کی سانس چل رہی تھی۔

وہاں ایک لڑکا فیض تھا جس کا پورا خادان ہلاک ہوگیا تھا، اس نے میرے بھائی کو پی ایف اکیڈیمی کے کارڈ سے پہچانا اور پھر فون کئے۔



وہاں امدادی کاروائیوں کی حالت بہت خراب تھی۔ بالا کوٹ اور مظفرآباد میں بہت رش تھا۔ یقین کیجئے میں پچھلے دو دن مظفرآباد میں گزار کے آیا ہوں۔ نیلم ویلی اور اس سے اوپر کے علاقوں کے جو حالات ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ خود مظفراْاد میں ایسی موت کی بدبو ہے کہ جو مجبوری میں کھڑا ہے وہ تو کھڑا ہے لیکن مجھ جیسے آدمی کا کھڑا ہونا بہت مشکل تھا۔ فوج بھی جارہی ہے لیکن کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کچھ نہیں پہنچا۔ انتہائی شدید سردی ہے۔ آپ یقین کریں کہ ہمیں وہاں ایک بچہ ملا جس کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ وہ سڑک کے کنارے بیٹھا تھا، میرے ساتھ میرے دوست اور کزنز تھے، انہوں نے کہا دیکھو، یہ بچہ ہے، میں نے کہا نہیں کوئی چٹان گری پڑی ہے۔

ہم نے گاڑی روکی تو وہ بچہ بخار سے تپ رہا تھا۔ وہ تین چار سال کا بچہ تھا کچھ بتا نہیں سکتا تھا، صرف اس کی آنکھیں ایک طرف تھیں، دیکھا تو اوپر کچھ بلندی پر ایک گھر تھا، وہاں پہنچے تو پورا گھر تباہ ہوچکا تھا۔ جب اس بچے کو فوجی ہسپتال میں پہنچایا تو انہوں نے کہا کہ اس کا نمونیہ آخری سٹیج پر ہے، خدا کرے یہ بچہ بچ جائے۔

بہت بری حالت ہے، میں کراچی آگیا ہوں اور کل اپنی ٹیم لے کر جا رہا ہوں لیکن میں اتنا کہوں گا کہ میڈیا جو کچھ دکھا رہا ہے، وہ پچیس فیصد بھی نہیں جو ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن خدا کے لئے وہاں جائیں جو بڑے شہر نہیں ہیں۔ میڈیا وہاں پہنچ سکتا ہے۔ وہاں مت جائیں جہاں صدر جاتے ہیں۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/1640_adnan_diary_ms/page25.shtml