ہفتہ بائیس اکتوبر:
 
’علی الصبح بالا کوٹ پہنچ کر ہم نے وہاں فوج کے فیلڈ کیمپ سے رابطہ کیا اور ان سے حکمتِ عملی مانگی۔ انہوں نے اب تک کی صورتِ حال سے مطلع کیا اور ہمیں ان علاقوں تک پہنچنے کی ہدایت کی جہاں اب تک کوئی امداد نہیں پہنچ سکی۔
اس میں سے قابلِ ذکر علاقہ ناران وادی سے آگے سیف الملوک اور شنگران کا تھا جہاں لینڈ سلائیلانگ کی وجہ سے راستے تقریباً بند تھے۔ ہم جیسے ہی بالا کوٹ سے نکلے ہمیں پیدل آنے والوں کا ایک ہجوم نظر آیا جن میں زخمیوں کی خاصی تعداد تھی۔
کاغان پہنچے تو وہاں ہمیں کچھ لوگوں نے بتایا کہ تھوڑا سا اوپر ایک پہاڑی پر کچھ مکانات ہیں جو گر چکے ہیں اور لوگ زخمی ہیں۔ یہ تقریباً کاغان سے پندرہ ہی منٹ دور ایک پہاڑی ہے جس پر کل گیارہ مکانات تھے اور سب گر چکے تھے۔ ان میں بقول مقامی افراد کے تقریباً چالیس لاشیں دبی ہوئی تھیں جبکہ ایک مکان سے چیخوں کی آواز ابھی تک آرہی تھی۔ پہلے تو ہم نے باہر موجود زخمیوں کو فوری طبی مدد فراہم کی اور پھر وہاں کا ملبہ ہٹانے کی کوشش کی جس کے نیچے سے آوازیں آرہی تھیں۔ صرف ایک چھت کے نیچے تین عورتیں اور دو بچے دبے ہوئے تھے جسے ہٹانے میں کوئی زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اتنا تو آپ خود بھی کرسکتے تھے تو وہ کہنے لگے کہ مارے ڈر کے ہم نے یہ چھت نہیں ہٹائی۔
ایک بچہ مرچکا تھا جبکہ باقیوں کے بچنے کے امکانات بھی انتہائی کم تھے۔ ایک لڑکی، زلیخا جو شاید بیس برس کی ہوگی اور حاملہ تھی، اس کا بچہ اس کے پیٹ میں ہی مرچکا تھا۔ ہم نے اسے باہر نکالا اور وہ ہمارے سامنے دم توڑ گئی، شاید وہ صرف بچے کے لیے زندہ تھی۔
اس خاندان کا کوئی بھی مرد وہاں نہیں تھا۔ وہ لوگ کہاں تھے، ہمیں نہیں معلوم۔ وہاں لوگ روزانہ نیچے جاکر گزرنے والوں سے مدد کی درخواست کرتے تھے، لیکن بقول ان کے لوگ آنے کا وعدہ کرکے جاتے تھے اور کوئی نہیں لوٹتا تھا۔ وہاں شدید زخمیوں کی تعداد سترہ تھی جن میں چھ بچے، ایک بوڑھا آدمی اور دس عورتیں تھیں، جنہیں ہم نے نیچے سڑک تک پہنچایا۔
شام کو میں اور میرا ایک ساتھی دوبارہ ایک جیپ والے کی مدد سے بالاکوٹ روانہ ہوگئے کیونکہ دواؤں کی کمی ہورہی تھی اور ہمیں ان کی اشد ضرورت تھی۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ فوج کے جوان اب دن رات کی پرواہ کئے بغیر امدادی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/1640_adnan_diary_ms/page24.shtml