Saturday, March 13, 2010

زلزلہ نامہ- عدنان کی آپ بیتی- ناران / بالاکوٹ


اتوار، تئیس اکتوبر:
’تقریباً صبح صادق کے وقت ہم ناران پہنچے۔ یہاں حالات بہت ہی خراب تھے۔ لوگ ابھی تک اپنے ہی بنے ہوئے خیموں میں رہ رہے ہیں۔ پانی نام کو بھی نہیں تھا۔ زخمی تڑپ رہے تھے کیونکہ ہم سے پہلے آنے والی ٹیم کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ سب کو طبی امداد مہیا کرپائے۔
میری ٹیم کے لوگ جو ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے تھے، وہ بھی سب کو اٹینڈ نہیں کرسکتے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں ارہا تھا کہ کیا کریں۔ وہاں دو این جی اوز کے لوگ بھی تھے۔ ہم سب نے مل کر ایک چھوٹی سی میٹنگ کی اور مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے شدید زخمیوں کو اٹینڈ کیا گیا۔ انتیس افراد اس وقت تک امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے جبکہ نو بچے شدید سردی کی نذر ہوچکے تھے۔ زخمیوں کی تعداد تقریباً چار سو بیاسی بتائی گئی جن میں نوِ کو فوری طبی امداد درکار تھی۔ ہم نے سب سے پہلے ایک جیپ کو بالا کوٹ روانہ کیا تاکہ وہ لوگ وہاں سے مدد لے کر اییں اور شدید زخمیوں کو وہاں روانہ کیا جاسکے لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔
جیسے دن چڑھا، بارش شروع ہوگئی۔ ایک طرف لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا اور دوسری طرف زخمی دم توڑنا شروع ہوگئے۔ شاید یہی ہمار امتحان ہے کہ یہاں لوگوں کو کچھ نہیں پتہ کہ کرنا کیا ہے۔
یہاں زخمیوں میں دو لوگ ہیں جو تبلیغ کے لیے کراچی سے یہاں آئے تھے۔ چھبیس سالہ حسن احمد کا تعلق فیڈرل بی ایریا سے ہے اور بتیس سالہ جاوید اکرم کورنگی سے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ان کے گھروں تک اطلاع پہنچ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید ہی ان کے جماعت کا کوئی شخص زندہ بچا ہو۔ بعد اذان یہ دونوں بھی بالاکوٹ منتقل ہوتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے۔
خدا کا شکر ہے کہ پتہ نہیں کس وقت ایک فوجی پیلی کاپٹر وہاں آیا، اس کے پائلیٹ کو تمام تفصیل بتائی تو اس نے زخمیوں کو وہاں سے بالاکوٹ منتقل کرنا شروع کیا۔
یہاں کے لوگ ابھی تک گم سم ہیں، نہ بولتے ہیں، نہ سنتے ہیں اور نہ ہی کھانے پینے کا ہوش ہے۔ فوج کے دریعے ہم نے یہاں خیمے تقسیم کئے اور لوگوں کو ان میں منتقل کیا۔ خیمے بہت ہی کم تھے اور باقی خیموں کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں اتا۔ مقامی لوگوں کے مشورے سے ہم نے کل اکیس خیمے لگائے جن میں پندرہ بچوں اور خواتین کے لیے مختص تھے اور باقی مردوں کے لیے۔ بعد میں مردوں نے اس میں سے بھی پانچ خواتین اور بچوں کے لیے خالی کردئیے۔ پھر لوگوں میں راشن پانی تقسیم کیا۔
لوگوں سے آگے کے حالات پوچھے تو انہوں نے بتایا کہ جھیل سیف الملوک کے داہنی جانب کچھ بستیاں ہیں جن کو شنگرام کہا جاتا ہے، وہاں سے ابھی تک کوئی خبر نہیں آئی۔
دوائیاں نہ ہونے کی وجہ سے میں آرمی ہیلی کاپٹر سے دوبارہ بالاکوٹ جارہا ہوں اور اب صبح تک ہی واپسی ممکن ہوگی۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/specials/1640_adnan_diary_ms/page23.shtml

No comments:

Post a Comment